Wednesday, January 27, 2010

زلفِ درازِ یار کا سایہ ہے آج بھی


زلفِ درازِ یار کا سایہ ہے آج بھی
پہلا ملن تو سوچ پہ چھایا ہے آج بھی

جھٹکا دیا یوں زلف کو کہ وقت تھم گیا
پل وہ ادا کا دل نے تھمایا ہے آج بھی

کھل کر جو زلفیں بکھریں تو آنگن میں رات ہوئی
دھوکے میں ماہتاب یہ آیا ہے آج بھی

ایسی دراز زلفیں کہ دیکھی نہیں کہیں
برسوں کے فاصلوں سے سلایا آج بھی

کافر یہ عمر تھی جو ترا روپ کھا گئی
میرے لیئے تو ویسے کا ویسا ہے آج بھی

یہ تازگی یہ سادگی اللہ یہ بانکپن
اس زلف نےجناب تھکایا ہے آج بھی

Bahar Pattern : = = - / = - = - / - = = - / = - =
Bahar Name: مضارع مثمّن اخرب مکفوف محذوف


No comments:

Post a Comment