امید سفر میں ہے
اول اول
گھاؤ جگر کے
بہت بیزار کرتے ہیں
کہ پر کٹے
پنچھی جیسے
قفس پہ وار کرتے ہیں
وقت آخر مرہم ہے
گھاؤ بھرنے لگتا ہے
گھاؤ بھرنے لگتے ہیں
آدمی کی عادت ہے
پھر پیار کرنے لگتا ہے
خواب جننے لگتے ھیں
دل بھی راگی طوطا ہے
قفس کے ماحول میں
کیسی ہی حبس کیوں ہو
راگ چھیڑ دیتا ہے
جیسے عمر قید کا
بدنصیب قیدی
جیل کی سلاخوں میں
جینا سیکھ لیتا ہے
زندگی امید ہے
اور امید سفر میں ہے
No comments:
Post a Comment