Friday, August 21, 2015

بچا ہی کچھ نہیں اس جسم و جاں کے گاوں میں

سفید روشنی پھونکی، ملا گھٹاوں میں
فلک سے ٹوٹ گیا چاند،  آیا پاوں میں

 زمیں نے پکڑا نہ آکاش نے بڑھایا ہاتھ
دوانہ وار بھٹکتا گیا خلاوں میں

نہ کوئی جانے نہ بوجھے، نہ حال تک پوچھے
بے چہرہ ہو کے جیے گا وہ سب سزاوں میں

 بس اک ضمیر کی آوازوہ بھی ہلکی سی
بچا ہی کچھ نہیں اس جسم و جاں کے گاوں میں

یہ کیسے وار کیا میں نے اپنے دشمن پر
کہ میرا سر ہی گرا کٹ کے اُس کے پاوں میں


  میں اپنے اپ تلک کس کے آسرے آتا
مرا خدا بھی تو گم ہو گیا خداوں میں

----------------------------------------------


گرے گی جا کے کہیں تو پتنگ ڈھیلی ہے
سو ڈور کھینچ لے، مت چھوڑ یوں ہواوں میں





No comments:

Post a Comment