Monday, August 3, 2015

یہ جو سرحد ہے

اک ندی خون کی ہے
یہ جو سرحد ہے
کتنے بے نام سے تیراک تھے جو کودے تو بلبلہ تک بھی نظر نہ آیا
اور جب قافلے چلے تھے ندی کے پار جانے کو
توسب برہنہ سر تھے
 ہم نے دیکھا تھا
شملوں ، پگڑیوں اور دستاروں کو پیروں تلے
سب برہنہ سر تھے
 ہم نے دیکھا تھا
چادروں کو, چنریوں کو، برقعوں کو
کیکروں میں، کھیتوں میں، گندے نالوں میں بازاروں میں،
 ہاری ہوٗی سپاہ کے پھٹے ہوٗے پرچموں کی طرح پاٗمال
ہم نے دیکھا تھا
شیر خوار شورمچاتے بچوں کو جھاڑیوں، بھوجھوں اور کما دوں میں پھینکے ہوٗے
(نادان نہیں جانتے تھے کہ رات گٗئے اور چوری چھپے کی ہجرت میں رو رو کے دودھ نہین مانگتے، انہیں پھینکنا ہی بہتر تھا)
ہم نے دیکھا تھا بزرگوں بیماروں , معذوروں کوسفر سے تھک ہار کے، راستوں میں بےآ سرا لیٹے ہوٗے
جنہیں ان کے عزیز نفسا نفسی کے عالم میں ، چھوڑ بھاگ گٗے تھے
(وہی نفسا نفسی جن کی بابت علما بتاتے ہیں
حشر کا دیہاڑا ہوگا
نہ ماں بیٹے کی، نہ بیٹا باپ کا، نہ بھاٗی بھاٗی کو پہچانتا ہوگا)

بہت سے کٹ مرے تھے رستوں میں،
جو بچ نکلے وہ بھی
خالی کھوکھلے تن تھے
جو دفن تو اُس پار ہوئے
لیکن زندہ اِس پار رہے

ہم کو معلوم ہے،
اجاڑے کی تفصیل
بھٹوارے کا دکھ
ہجرت کا کرب
اور
!!!!نفرت زدہ آزادی کے معانی
اک ندی خون کی ہے
یہ جو سرحد ہے

No comments:

Post a Comment