کب سے سوچ رکھا ہے
نظم ایک لکھنی ہے
زندگی کی گردش میں
رات دن بدلتے ہیں
فکر الجھی رہتی ہے
وقت ہی نہیں ملتا
دو گھڑی توقف کا
یاد تک نہیں رہتا
سانس بھی تو لینی ہے
آج جب کہ بیٹھا ہوں
کب سے سوچ میں گم ہوں
کیا اتا روں کا غذ پر
حد ہے بھولنے کی بھی
بھول گیا یہا ں تک میں
نظم کا موضوع کیا تھا
ہاں مگر یقیں ہے یہ
کچھ ستم کی باتیں تھیں
تجھ سے کچھ شکایتیں تھیں
No comments:
Post a Comment