کیسے کھائوں کے گلے میں ہی اٹک جاتا ہے
میرے کھانے میں حقارت کی ملاوٹ مت کر
جان پیاری ہے مگری اتنی بھی پیاری نہیں ہے
اے سخی ایسی سخاوت کو اٹھا لے مجھ سے
کہاں یہ وقت کا پتھر کہاں نحیف سے ہاتھ
یتیم بچے نے خوابوں میں عمر کاٹی ہے
کبھی سانسوں کا کبھی دل کا کبھی لوگوں کا
اس قدر شور ہے ، جیتے ہیں تو کیا جیتے ہیں
اک اذیت ہے ترا پیار مجھے پیار نہ کر
کہ جو بے وقت کی پیتے ہیں وہ کیا پیتے ہیں
یہ جو اک ہونے نہ ہونے کا کوئی کھیل سا ہے
ہم اسی کھیل کے مہرے ہیں سو پٹ جائیں گے
یہ جو ہونے نہ ہونے کا کوئی کھیل سا ہے
ایسے لگتا ہے مرا نام مٹا ڈالے گا
No comments:
Post a Comment