Wednesday, August 7, 2013

میری تھالی میں حقارت کی ملاوٹ مت کر


کیسے کھائوں کے گلے میں ہی اٹک جاتا ہے
میرے کھانے میں حقارت کی ملاوٹ مت کر
 جان پیاری ہے مگری اتنی بھی پیاری نہیں ہے
اے سخی ایسی سخاوت کو اٹھا لے مجھ سے


کہاں یہ وقت کا پتھر کہاں نحیف سے ہاتھ
یتیم بچے نے خوابوں میں عمر کاٹی ہے


کبھی سانسوں کا کبھی دل کا کبھی لوگوں کا
اس قدر شور ہے ، جیتے ہیں تو کیا جیتے ہیں

اک اذیت ہے ترا پیار مجھے پیار نہ کر
کہ جو بے وقت کی پیتے ہیں وہ کیا پیتے ہیں


یہ جو اک ہونے نہ ہونے کا کوئی کھیل سا ہے
ہم اسی کھیل کے مہرے ہیں سو پٹ جائیں گے

یہ جو ہونے نہ ہونے کا کوئی کھیل سا ہے
ایسے لگتا ہے مرا نام مٹا ڈالے گا

No comments:

Post a Comment