اے کاش یوں بھی ہو اک بار سب ہی غارت ہو
یہ کائینات نئے طور سے عمارت ہو
یہ کائینات نئے طور سے عمارت ہو
میں تنگ آ گیا مصروفیت سے محفل سے
جی چاہتا ہے کہ تنہائی ہو فراغت ہو
جی چاہتا ہے کہ تنہائی ہو فراغت ہو
کسی کا ساتھ ہو لیکن ہوا سا ہلکا سا
کہ جس میں کوئی عداوت نہ کوئی الفت ہو
کہ جس میں کوئی عداوت نہ کوئی الفت ہو
تمام عمر چلوں راستہ تمام نہ ہو
نہ کوئی دیر نہ عجلت سفر میں راحت ہو
نہ کوئی دیر نہ عجلت سفر میں راحت ہو
سکوت ایسا کہ دھڑکن بھی شور لگتی ہو
کنارِ آب کہیں چاند پر سکونت ہو
کنارِ آب کہیں چاند پر سکونت ہو
حسین لوگ ہوں لیکن خموش بیٹھے ہوں
نہ کوئی شکوہ شکایت نہ کوئی حاجت ہو
نہ کوئی شکوہ شکایت نہ کوئی حاجت ہو
ہوس پرست ہو عاشق ہو شرط اتنی ہے
تعلقات میں نرمی ہو اور نزاکت ہو
تعلقات میں نرمی ہو اور نزاکت ہو
نگاہ ٹھنڈی ہو ایسی سکون آجائے
لبوں میں شہد سے بڑھ کو کوئی حلاوت ہو
لبوں میں شہد سے بڑھ کو کوئی حلاوت ہو
ہوا چلے تو بدن ڈولتا پھرے ایسے
کہ جیسے پانی پہ کاغذ کا پھول تیرت ہو
کہ جیسے پانی پہ کاغذ کا پھول تیرت ہو
No comments:
Post a Comment