Thursday, June 27, 2013

اے کاش یوں بھی ہو اک بار سب ہی غارت ہو

اے کاش یوں بھی ہو اک بار سب ہی غارت ہو
یہ کائینات نئے طور سے عمارت ہو
میں تنگ آ گیا مصروفیت سے محفل سے
جی چاہتا ہے کہ تنہائی ہو فراغت ہو
کسی کا ساتھ ہو لیکن ہوا سا ہلکا سا
کہ جس میں کوئی عداوت نہ کوئی الفت ہو
تمام عمر چلوں راستہ تمام نہ ہو
نہ کوئی دیر نہ عجلت سفر میں راحت ہو
سکوت ایسا کہ دھڑکن بھی شور لگتی ہو
کنارِ آب کہیں چاند پر سکونت ہو
حسین لوگ ہوں لیکن خموش بیٹھے ہوں
نہ کوئی شکوہ شکایت نہ کوئی حاجت ہو
ہوس پرست ہو عاشق ہو شرط اتنی ہے
تعلقات میں نرمی ہو اور نزاکت ہو
نگاہ ٹھنڈی ہو ایسی سکون آجائے
لبوں میں شہد سے بڑھ کو کوئی حلاوت ہو
ہوا چلے تو بدن ڈولتا پھرے ایسے
کہ جیسے پانی پہ کاغذ کا پھول تیرت ہو

No comments:

Post a Comment