Thursday, June 20, 2013

گھسا پٹا سا ہے معمول، زندگی کیا ہے

گھڑی نے سوئی سے باندھا ہوا ہے ہم سب کو
گھسیٹے جاتی ہے جو ساتھ ساتھ آٹھوں پہر
گھڑی رکے تو ذرا سانس لے سکیں ہم بھی

صبح کے آٹھ بجے ناشتہ کرو اٹھّو
چلو چلو کہیں دفتر سے دیر ناں ہو جائے
لو ایک بج گیا ظہرانہ بن گیا ہو گا
یہ پیٹ پاپی ہے نیّت کا لالچی ہے بہت
دو چار لقموں سے اس کی زبان بند کرو 

گھڑی نے سات بجائے اٹھو چلو گھر کو
گھر آ کے پھر وہی بیوی کے روز کے شکوے
جسے تسلیاں دیتے گیارہ بارہ بجیں
ذرا جو آنکھ لگے پھر کلاک بجنے لگے
گھسا پٹا سا ہے معمول،  زندگی کیا ہے

گھڑی نے سوئی سے باندھا ہوا ہے ہم سب کو
گھسیٹے جاتی ہے جو ساتھ ساتھ آٹھوں پہر
گھڑی رکے تو ذرا سانس لے سکیں ہم بھی

No comments:

Post a Comment