Monday, June 17, 2013

گلزار کے نام

خود سے بچھڑ کے خود کو ہی پھر کھوجتے رہے
ہجرت نصیب لوگوں کو چہرے نہ مل سکے

تقسیم کا ملال مجھے اس لیے بھی ہے
گلزار دینہ چھوڑ کے دلی چلے گئے

ستر برس کے بعد جو لوٹے وطن میں وہ
جوتے اتار مٹی سے چھوتے ہوئے چلے

بچپن کا بھولپن تو کہیں یاد رفتگاں
ہر سمت داستاں تھی کہ آنسو چھلک پڑے

قانون زندگی ہے فقط آرزو نہیں
جس دھرتی پہ اگا ہو، اسی دھرتی پہ کٹے

لاکھوں کی شہہ رگوں کو نچوڑا تو پھر بنی
وحشت کا استعارہ ہے سرحد نہ کہہ اسے

No comments:

Post a Comment