خود سے بچھڑ کے خود کو ہی پھر کھوجتے رہے
ہجرت نصیب لوگوں کو چہرے نہ مل سکے
تقسیم کا ملال مجھے اس لیے بھی ہے
گلزار دینہ چھوڑ کے دلی چلے گئے
ستر برس کے بعد جو لوٹے وطن میں وہ
جوتے اتار مٹی سے چھوتے ہوئے چلے
بچپن کا بھولپن تو کہیں یاد رفتگاں
ہر سمت داستاں تھی کہ آنسو چھلک پڑے
قانون زندگی ہے فقط آرزو نہیں
جس دھرتی پہ اگا ہو، اسی دھرتی پہ کٹے
لاکھوں کی شہہ رگوں کو نچوڑا تو پھر بنی
وحشت کا استعارہ ہے سرحد نہ کہہ اسے
No comments:
Post a Comment