Saturday, September 14, 2024

 کچھ ایسا وقت پلٹا ہے کہانی سے ہی باہر ہیں

کبھی ہم مرکزی کردار ہوتے تھے کہانی کا

Sunday, September 1, 2024

گنتی کریے تے سال تیرے ذیادہ نیں

 گنتی کریے تے سال تیرے ذیادہ نیں

پر داڑھی دے وچ چٹے وال میرے زیادہ نیں

کئی وقت دی انگلی پھڑ کے تردے نیں

تے کئی وقت نوں موڈھے چکی پھردے نیں

تمہارا نام سب سے پہلے آتا ہے

 مجھے جو خوبصورت لگتے ہیں ان میں
تمہارا نام سب سے پہلے آتا ہے

نہ گورا اور نہ کالا اور نہ بادامی 

جوتیرا رنگ بس ویسا ہی بھاتا ہے

جو تیرا قد بس اتنا قد مناسب ہے

ذرا سا کم ذیادہ عیبت لگتا ہے

جو تو پہنے تو کھدر بھی ہے ریشم سا

نہ پہنے تو تو ریشم خاک جیسا ہے

 مجھے جو خوبصورت لگتے ہیں ان میں
تمہارا نام سب سے پہلے آتا ہے


التجا

 میں چاہتا تھا اسے تو، وہ دیکھتا بھی ن تھا

کنارہ کش ہوا جب سے دوانہ ہو گیا ہے

طواف کرتے تھے ان کا وہ دیکھتے بھی نہ تھا

گریز کرنے لگے تو وہ پاس آنے لگے

یہاں پہ کچھ بھی نہیں التجا سے ملتا ہے

بس اتنی بات سمجھنے کو ہی زمانے لگے


حد

 خوشیاں جتنی بھی ہوں خوش رہنے کی حد ہے پیارے

جتنا دامن ہو بس اتنی ہی سما سکتی ہیں


درد اتنا ہی سما سکتاہے

جس قدر دل میں جگہ ہوتی ہے

زخم کم ہو کہ زیادہ فرق نہیں


دوستی کی بھی عمر ہوتی ہے

دشمنی کی بھی عمر ہوتی ہے

جسم ہوتے ہیں جس طرح بوڑھے

عاشقی کی بھی عمر ہوتی ہے


آنکھ بھر کر جسے دیکھے اسے دیوانہ کرے

عشق میں ایسی سہولت نہیں ملتی سب کو

درد ہوتا ہے تو رو لیتے ہو عیاش ہو تم

ورنہ رونے کی بھی فرصت نہیں ملتی سب کو



haram poetry for naveil sister

 partner tera intizar hua

tere janay k baad tera ihsas hua

teri yaad mein pata nahin kia kia hua

turi muskarahat se mujhay pyar hua

باغ

 باغ جو کل تھا وہی آج ہے لیکن اس میں

ایک بھی پھول نہیں کل کے کھلے پھولوں سے

یونہی چپ چاپ کسی روز نہیں ہوں گے ہم