کچھ ایسا وقت پلٹا ہے کہانی سے ہی باہر ہیں
کبھی ہم مرکزی کردار ہوتے تھے کہانی کا
گنتی کریے تے سال تیرے ذیادہ نیں
پر داڑھی دے وچ چٹے وال میرے زیادہ نیں
کئی وقت دی انگلی پھڑ کے تردے نیں
تے کئی وقت نوں موڈھے چکی پھردے نیں
مجھے جو خوبصورت لگتے ہیں ان میں
تمہارا نام سب سے پہلے آتا ہے
نہ گورا اور نہ کالا اور نہ بادامی
جوتیرا رنگ بس ویسا ہی بھاتا ہے
جو تیرا قد بس اتنا قد مناسب ہے
ذرا سا کم ذیادہ عیبت لگتا ہے
جو تو پہنے تو کھدر بھی ہے ریشم سا
نہ پہنے تو تو ریشم خاک جیسا ہے
مجھے جو خوبصورت لگتے ہیں ان میں
تمہارا نام سب سے پہلے آتا ہے
میں چاہتا تھا اسے تو، وہ دیکھتا بھی ن تھا
کنارہ کش ہوا جب سے دوانہ ہو گیا ہے
طواف کرتے تھے ان کا وہ دیکھتے بھی نہ تھا
گریز کرنے لگے تو وہ پاس آنے لگے
یہاں پہ کچھ بھی نہیں التجا سے ملتا ہے
بس اتنی بات سمجھنے کو ہی زمانے لگے
خوشیاں جتنی بھی ہوں خوش رہنے کی حد ہے پیارے
جتنا دامن ہو بس اتنی ہی سما سکتی ہیں
درد اتنا ہی سما سکتاہے
جس قدر دل میں جگہ ہوتی ہے
زخم کم ہو کہ زیادہ فرق نہیں
دوستی کی بھی عمر ہوتی ہے
دشمنی کی بھی عمر ہوتی ہے
جسم ہوتے ہیں جس طرح بوڑھے
عاشقی کی بھی عمر ہوتی ہے
آنکھ بھر کر جسے دیکھے اسے دیوانہ کرے
عشق میں ایسی سہولت نہیں ملتی سب کو
درد ہوتا ہے تو رو لیتے ہو عیاش ہو تم
ورنہ رونے کی بھی فرصت نہیں ملتی سب کو
partner tera intizar hua
tere janay k baad tera ihsas hua
teri yaad mein pata nahin kia kia hua
turi muskarahat se mujhay pyar hua
باغ جو کل تھا وہی آج ہے لیکن اس میں
ایک بھی پھول نہیں کل کے کھلے پھولوں سے
یونہی چپ چاپ کسی روز نہیں ہوں گے ہم