مجھے معلوم تھے رستے اس کے
سو اس کے آنے سے ذرا سا پہلے
پتیاں بکھیر آتا تھا راہوں میں
صرف اس امید پہ کہ شاید کسی روز وہ یہ سوچ سکے
یہ گلاب کہاں سے آتے ہیں؟؟؟؟؟
جب وہ چلتا تو جی میں آتا
چلتا جائے چلتا جائے اور میں اس کے پیروں تلے سینہ بچھاتا جاوں
جب وہ رکتا تہ تو لگتا
اب ٹریفک نہیں چلنے والی شہر کا شہر ہی ہو جائے گا دفتر سے لیٹ
جب وہ مڑتا تو لگتا
خدا جیسے کسی ہاتھ نے سمتیں گھما کے رکھ دی ہیں
مشرق کو شمال اور شمال کو مغرب کر دیا ہے
اب سوچتا ہوں تو حیران ہوا جاتا ہوں
کیا ایسی ہوتی ہے محبت
No comments:
Post a Comment