Sunday, January 1, 2012

نامِ الفت میں بھی پہلی سی کشش باقی نہیں

درد بڑھ جائے تو اس کو بھی مداوا سمجھیں
اب یہ حالت ہے کہ صحرا کو بھی دریا سمجھیں

لے کے سینے میں خلا پھرتے ہیں گلیوں گلیوں
جو بھی مل جائے اسے اپنا مسیحا سمجھیں

جیے جاتے ہیں مگر لطف نہیں جینے میں
زندگی ہم تو تجھے فرضِ کفایہ سمجھیں

ایسے لگتا ہے کوئی اینٹ جڑی سینے میں
دل کی دھڑکن کے معانی کو بھلا کیا سمجھیں

وہ جو اک شخص مہکتا تھا گلابوں کی طرح
اب اسی شخص کو ہر دکھ کو اثاثہ سمجھیں

نامِ الفت میں بھی پہلی سی کشش باقی نہیں
اب تو محبوب کو بس سوچ کا دھوکا سمجھیں

No comments:

Post a Comment