Monday, January 9, 2012

جیتے ہیں کہ جینے کی یہ عادت ہے پرانی

 



دل کا کبھی جھگڑا ہے کبھی فکر ہے جاں کی
یہ عالمِ امکان یہ دنیا ہے گماں کی

بیٹھے ہیں بڑی دیر سے چپ چاپ سرِرہ
وہ پوچھنے آیا ہے نہ ہم نے ہی بیاں کی

پہلے سے مراسم ہیں نہ پہلی سی محبت
بے خوف وہ جذبے نہ وہ شوخی ہے بتاں کی

جیتے ہیں کہ جینے کی یہ عادت ہے پرانی
سانسوں کا تسلسل ہے کہ گردش ہے زماں کی

خواہش پہ محبت کا کفن باندھ رہے ہو
یہ نفس کا دھوکا یہ کثافت ہے زباں کی

ہر چیز کی ہوتی ہے کوئی عمر مری جاں
اب اپنی محبت بھی ہوئی فصل خزاں کی

خاموش و حسیں صورتِ تصویر ہو بیٹھی
کچھ بات سمجھتی ہو محبت زدگاں کی؟

No comments:

Post a Comment