Sunday, January 8, 2012

جہاں تلک تھا تیقّن وہیں تلک تھا سفر

زمیں مری نہ ہی سورج کا یہ نظام مرا
میں اس جہاں کا نہیں - کیا یہاں پہ کام مرا؟

میں چلتے چلتے یہ کس مے کدے میں آ نکلا
یہ تشنگی ہے مری اور نہ ہی یہ جام مرا

فلک کی آنکھ سے ٹوٹا ہوا ستارہ ہوں
جہاں زمین ملے گی وہیں قیام مرا

میں چل رہا ہوں مسلسل جہاں کی بھیڑ کے ساتھ
مسافتیں یہ مری اور نہ یہ قیام مرا

جب اپنے لوگ ہی غیروں سے بڑھ کے اجنبی ہوں
تو جان و دل کا اثاثہ ہو کس کے نام مرا

جہاں تلک تھا تیقّن وہیں تلک تھا سفر
گماں کی حد میں لرزنے لگا خرام مرا

No comments:

Post a Comment