Saturday, January 28, 2012

بڑا ہے لطف جینے میں پہ سمجھوتا نہ ہو جائے

 
تمہارے ہجر کا ماتم کہیں ہلکا نہ ہو جائے
بڑا ہے لطف جینے میں پہ سمجھوتا نہ ہو جائے

نئی کونپل جب اگتی ہے ہوائوں سے بچاتے ہیں
ابھی آغازِ الفت ہے کہیں چرچا نہ ہو جائے

ابھی تک جی نہیں پائے ابھی تک سوچتے ہیں ہم
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

سنو نوعمر بیٹے کو ذرا تم دور ہی رکھنا
جوانی سے وہ پہلے ہی کہیں بوڑھا نہ ہو جائے

دکھوں کو سینت کر رکھوں کہ یہ بھی چھوڑ نہ جائیں
اکیلے پن میں گھٹ گھٹ کر یہ دل مردہ نہ ہو جائے

میں شاعر تو نہیں تھا پر مجھے رونے سے نفرت تھی
لبوں پر اشک رکھ آیا مگر دھوکا نہ ہو جائے

No comments:

Post a Comment