Saturday, January 7, 2012

عمر خوشیوں کی ہمیشہ تھوڑی

زندگی ایک تماشا ہی سہی
پیار جینے کا بہانہ ہی سہی

پاس آئے تھے ہم نصیبوں سے
اب بچھڑ جانا نصیبہ ہی سہی

زندگی دھوپ کا رستہ ہے اگر
در ترا پیڑ کا سایہ ہی سہی

عمر خوشیوں کی ہمیشہ تھوڑی
وصل کچھ روز کا دھوکا ہی سہی

جو بھی ہو سر سے گزر جائے گا
دکھ کے سیلاب کا ریلا ہی سہی

No comments:

Post a Comment