Thursday, January 19, 2012

عشق تعبیر کو چھو لے تو بدلتا جائے

درد عادت کی طرح مجھ میں پنپتا جائے
جینا کچھ سال سے بے کار سا بنتا جائے

ایسے لگتا ہے کہ دیوار کھڑی چار طرف
میرا سامع مری آواز پلٹتا جائے

درد سرمایہ اگر ہے تو میں خوش قسمت ہوں
عمر کے ساتھ یہ سرمایہ بھی بڑھتا جائے

کتنی بے مایہ ہے انسان کی ہستی ہوگو
دم نکل جائے تو پھر نام بھی مٹتا جائے

عشق بس خواب کی حد میں ہی بھلا لگتا ہے
عشق تعبیر کو چھو لے تو بدلتا جائے

No comments:

Post a Comment